ربیع الثانی کی مناسبت سے سیرت رسول پر تقریر: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیت والد
تمہیدی کلمات بعنوان نبی کریم ﷺ بحیثیت والد
نَحْمَدُہُ وَ نُصَلّیِ عَلٰی رَسُولِہِ الْکَرِیْمْ اَمّا بَعْدْ۔
فَاَعُوذُ بِاللہِ السمیع العلیم مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمْ
بِسْمِ اللہ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمْ ؕ : لَقَدۡ كَانَ لَكُمۡ فِىۡ رَسُوۡلِ اللّٰهِ اُسۡوَةٌ حَسَنَةٌ *
محترم حضرات! اپنی اولاد کو پاکیزہ خیالات، تعمیری عادات و اطوار، مثبت عقائد و افکار اور صالح سیرت سے آراستہ کرنا ہر مسلمان والدین کی اہم ذمے داری ہے۔ والدین کی ایک بڑی تعداد اس بات کے جاننے کی شدید خواہش رکھتی ہے، کہ اولاد کے ساتھ تعلق اورمعاملہ کی بہترین صورت کیا ہے۔ اس کائنات میں انسانی زندگی کے ہر شعبہ کے لیے بہترین نمونہ ہمارے نبی حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ خود اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایاہے: {لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ أُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ لِّمَنْ کَانَ یَرْجُوا اللّٰہَ وَ الْیَوْمَ الْاٰخِرَ وَ ذَکَرَ اللّٰہَ کَثِیْرًا} [ سورۃ الأحزاب: 21]
’’بلاشک و شبہ تمہارے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں بہترین نمونہ ہے، اس کے لیے جو اللہ تعالیٰ اور روزِ قیامت کا یقین رکھتا ہو اور اللہ تعالیٰ کو بہت یاد کرتا ہو۔‘‘
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! زندگی کے ہر شعبے میں بے مثال اور بے نظیر نظر آتے ہیں، خواہ وہ دعوتی زندگی ہو، یا ازدواجی زندگی، سیاسی زندگی ہو یا گھریلو زندگی، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی بحیثیت والد بھی ہم سب کیلئے بہترین نمونہ ہے بالخصوص والدین کےلئے، آج خطبہ جمعہ میں ہم نے اسی عنوان ” رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیت والد ” کا انتخاب کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہم سب کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سیرت مطہرہ سے عبرت و نصیحت حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین یا رب العالمین ۔
سیرت رسول پر تقریر: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیت والد
اولاد سے محبت و شفقت
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی تمام اولاد سے انتہائی شفقت، پیار اور محبت کرتے تھے۔
1. ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت نقل کی ہے، کہ بے شک انہوں نے بیان کیا: میں نے فاطمہ رضی اللہ عنہا سے زیادہ کسی کو بات چیت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مشابہ نہیں دیکھا۔ اور جب وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں آتیں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے [استقبال کے] لیے اٹھ کر آگے بڑھتے، انہیں بوسہ دیتے، انہیں خوش آمدید کہتے، ان کے ہاتھ کو تھامتے اور اپنی جگہ میں بٹھاتے اور جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان کے ہاں تشریف لے جاتے، تو وہ (بھی استقبال کی خاطر) اٹھ کر آگے بڑھتیں، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بوسہ دیتیں اور آپ کے ہاتھ کو تھام لیتیں…[صحیح اب حبان:6953]
2. حضرت ابوقتادہ انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت بیان کرتے ہیں کہ: ’’میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو امامت کرواتے ہوئے دیکھا اور ابوالعاص رضی اللہ عنہ کی بیٹی امامہ، اور وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی زینب رضی اللہ عنہا کی (بھی) بیٹی تھیں، آپ کے شانہ پر تھیں۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جب رکوع کرتے، تو انہیں (نیچے) اُتار کررکھ دیتے اور جب سجدے سے سر اٹھاتے، تو انہیں دوبارہ (اپنے کندھے پر) رکھ دیتے۔ [صحیح البخاری:516]
3. حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں خطبہ دے رہے تھے۔ حسن و حسین رضی اللہ عنہما سرخ قمیصیں پہنے لڑکھڑاتے ہوئے آئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم منبر سے نیچے تشریف لائے اور ان دونوں کو اٹھایا اور اپنے آگے بٹھالیا۔
پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ اور ان کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے سچ کہا:[ إِنَّمَا أَمْوَالُکُمْ وَأَوْلَادُکُمْ فِتْنَۃٌ] ترجمہ: تمہارے مال اور تمہاری اولاد تو محض ایک آزمائش ہے۔‘‘
میں نے ان دو بچوں کو دیکھا، کہ وہ ڈگمگاتے ہوئے آرہے ہیں، تو مجھ سے صبر نہ ہوسکا، یہاں تک کہ میں نے اپنے سلسلۂ کلام کو منقطع کیا اور ان دونوں کو اٹھایا۔‘‘[ابوداؤد:1105]
سیرت رسول پر تقریر: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیت والد
اولاد کی تعلیم کا اہتمام
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بحیثیت باپ اپنی بیٹی اور ان کی اولاد کو تعلیم دینے کا اہتمام فرمایا، علاوہ ازیں نواسے نے بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں بیٹھ کر دین کی باتوں کو سیکھا اور یاد کیا۔
1. حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ : ’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فاطمہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا: ’’ میں تمہیں جو وصیت کر رہا ہوں، اس کے سننے [یعنی اس کے مطابق عمل کرنے] سے تمہیں کیا چیز روک رہی ہے: یہ کہ تم صبح اور شام کے وقت کہو: [ یَا حَیُّ ! یَا قَیُّوْمُ! بِرَحْمَتِکَ أَسْتَغِیْثُ ، أَصْلِحْ لِيْ شَأْنِيْ کُلَّہُ ، وَلَا تَکِلْنِيْ إِلیٰ نَفْسِيْ طَرَفَۃَ عَیْنٍ۔ [ترجمہ: اے ہمیشہ زندہ رہنے والے! ہر چیز کو قائم رکھنے والے! میں آپ ہی کی رحمت کے ساتھ آپ سے مدد طلب کرتی ہوں۔ میری ہر حالت کی اصلاح فرما دیجیے اور مجھے آنکھ جھپکنے کے برابر بھی میرے نفس کے سپرد نہ کیجیے۔‘‘[السنن الکبریٰ: 10330]
2. حضرت حسن بن علی رضی اللہ عنہما سے روایت ہے انہوں نے بیان کیا: عَلَّمَنِيْ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللّٰه علیہ وسلم کَلِمَاتٍ أَقُوْلُہُنَّ فِيْ الْوَتْرِ۔‘‘
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے کلمات سکھلائے، کہ میں انہیں (نماز) وتر میں پڑھا کروں۔‘‘
’’اَللّٰہُمَّ اھْدِنِيْ فِیْمَنْ ھَدَیْتَ، وَعَافِنِيْ فِیْمَنْ عَافَیْتَ، وَتَوَلَّنِيْ فِیْمَنْ تَوَلَّیْتَ، وَبَارِکْ لِيْ فِیْمَا أَعْطَیْتَ، وَقِنِيْ شَرَّ مَا قَضَیْتَ، إِنَّکَ تَقْضِيْ وَلَا یُقْضٰی عَلَیْکَ، وَإِنَّہُ لَاَ یَذِلُّ مَنْ وَّالَیْتَ، وَلَا یَعِزُّ مَنْ عَادَیْتَ، تَبَارَکْتَ رَبَّنَا وَتَعَاَلَیْتَ۔‘‘
[اے اللہ! مجھے ہدایت دیجئے، ان لوگوں میں سے ،جنہیں آپ نے ہدایت دی اور مجھے عافیت دیجئے، ان لوگوں میں سے، جنہیں آپ نے عافیت دی اور میری نگہبانی فرمائیے، ان لوگوں میں سے، جن کی آپ نے نگہبانی فرمائی اور جو کچھ آپ نے عنایت فرمایا، اس میں برکت فرمائیے اور آپ نے جو فیصلہ فرمایا، اس کے شر سے مجھے بچالیجئے۔ بے شک آپ فیصلہ کرتے ہیں، آپ پر فیصلہ نہیں کیا جاتا اور بلاشبہ وہ ذلیل نہیں ہوتا، جس کی آپ سرپرستی فرمائیں اور وہ عزت نہیں پاتا، جس سے آپ دشمنی کریں۔ آپ با برکت اور بلند و بالا ہیں۔ [سنن أبي داود:1422]
3. حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے بیان کیا: ’’فاطمہ رضی اللہ عنہا خادم طلب کرنے کی خاطر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آئیں، تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: ’’مَا عِنْدِيْ مَا أُعْطِیْکِ۔‘‘
’’میرے پاس تجھے دینے کے لیے (کچھ) نہیں ہے۔‘‘
وہ واپس چلی گئیں۔ پھر اس کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان کے ہاں تشریف لائے اور پوچھا:
’’اَلَّذِيْ سَأَلْتِ أَحَبُّ إِلَیْکِ، أَوْ مَا ھُوَ خَیْرُ مِنْہُ؟‘‘
[’’تمہیں وہ چیز زیادہ پسند ہے، جو تم نے طلب کی ہے، یا اس سے بہتر چیز‘‘] علی رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا: ’’قُوْلِيْ: لَا بَلْ مَا ھُوَ خَیْرٌ مِنْہُ۔‘‘
آپ کہیے: ’’نہیں‘‘ بلکہ وہ چیز (پسند ہے)، جو کہ اس سے بہتر ہے۔‘‘ انہوں [یعنی فاطمہ رضی اللہ عنہا ] نے (ایسے ہی) کہا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’تم کہو: ’’اَللّٰہُمَّ رَبَّ السَّمٰواتِ السَّبْعِ وَرَبَّ الْعَرْشِ الْعَظِیْمِ! رَبَّنَا وَرَبَّّ کُلِّ شَيْئٍ! مُنْزِلَ التَّوْرَاۃِ وَالْإِنْجِیْلِ وَالْقُرْآنِ الْعَظِیْمِ! أَنْتَ الْأَوَّلُ فَلَیْسَ قَبْلَکَ شَيْئٌ، وَأَنْتَ الْآخِرُ فَلَیْسَ بَعْدَکَ شَيْئٌ، وَأَنْتَ الظَّاہِرُ فَلَیْسَ فَوْقَکَ شَيْئٌ، وَأَنْتَ الْبَاطِنُ فَلَیْسَ دُوْنَکَ شَيْئٌ۔ اِقْضِ عَنَّا الدَّیْنَ وَأَغْنِنَا مِنَ الْفَقْرِ۔‘‘
[’’اے اللہ ساتوں آسمانوں کے رب اور عرش عظیم کے رب! [اے] ہمارے رب اور ہر چیز کے رب! [اے] تورات، انجیل اور قرآن عظیم نازل فرمانے والے! آپ اول ہیں، کہ آپ سے پہلے کوئی چیز نہیں، آپ آخر ہیں، کہ آپ کے بعد کوئی چیز نہیں، آپ ظاہر ہیں، کہ کوئی چیز آپ سے اوپر نہیں، آپ باطن ہیں، کہ کوئی چیز آپ سے پوشیدہ نہیں، ہماری طرف سے قرض ادا کردیجئے اور ہمیں فقر سے غنی فرما دیجئے۔‘‘[صحیح مسلم:2713]
سیرت رسول پر تقریر: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیت والد
اولاد کا احتساب (محاسبہ)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ، اپنی اولاد سے قلبی تعلق اور غیر معمولی پیار کے باوجود، ان کے ہاں قابل اعتراض بات سے چشم پوشی نہ فرماتے تھے، بلکہ پُر زور اور صورتِ حال کے مطابق اسلوب میں اس کا احتساب فرماتے تھے۔
1. حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے بیان کیا، کہ بلاشبہ ہبیرہ کی بیٹی رضی اللہ عنہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں، اور ان کے ہاتھ میں سونے کی انگوٹھیاں تھیں، جنہیں [اَلْفَتَخَ] کہا جاتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ میں موجود چھوٹی سی چھڑی کے ساتھ ان کے ہاتھ پر مارنا شروع کیا اور ساتھ ساتھ یہ فرماتے رہے: ’’أَیَسُرُّکِ أَنْ یَجْعَلَ اللّٰہُ فِيْ یَدِکِ خَوَاتِیْمَ مِنْ نَارٍ‘‘؟ [’’کیا تمہیں یہ بات پسند ہے، کہ اللہ تعالیٰ [ان سونے کی انگوٹھیوں کی وجہ سے] تمہارے ہاتھ میں دوزخ کی آگ کی انگوٹھیاں ڈال دیں؟‘‘]
وہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے پاس آئیں اور اپنے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سلوک کا شکوہ کیا۔ انہوں [یعنی ثوبان رضی اللہ عنہ ] نے بیان کیا: ’’میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ روانہ ہوا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم [حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے گھر کے قریب پہنچ کر] دروازے کے پیچھے کھڑے ہوگئے۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم [کا طریقہ مبارک یہی تھا، کہ] جب اجازت طلب کرتے، تو دروازے کے پیچھے کھڑے ہوجاتے۔‘‘ انہوں نے بیان کیا: ’’فاطمہ نے ان [یعنی ہبیرہ کی بیٹی رضی اللہ عنہما] سے کہا: ’’اس زنجیر کو دیکھئے، جو مجھے ابوحسن رضی اللہ عنہما نے بطور تحفہ دی ہے۔‘‘ انہوں نے بیان کیا: ’’زنجیر ان کے ہاتھ ہی میں تھی، کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اندر تشریف لائے اور فرمایا:
’’یَا فَاطِمَۃُ ! بِالْعَدْلِ أَنْ یَقُوْلَ النَّاسُ: ’’فَاطِمَۃُ بِنْتُ مُحَمَّدٍ صلی اللّٰه علیہ وسلم ، وَفِيْ یَدِکِ سِلْسِلَۃٌ مِنْ ناَرٍ؟‘‘
’’اے فاطمہ رضی اللہ عنہا ! کیا لوگ یہ بات کہنے میں حق بجانب ہوں گے: [یہ] فاطمہ بنت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔ اور تمہارے ہاتھ میں (دوزخ کی) آگ کی زنجیر ہے؟‘‘ پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس [زنجیر] کو زبان سے شدّت سے بھینچا اور بیٹھے بغیر تشریف لے گئے۔ انہوں [یعنی حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا ] نے زنجیر کے بارے میں حکم دیا اور وہ فروخت کردی گئی۔ پھر انہوں نے اس [سے حاصل ہونے والی رقم] کے ساتھ ایک غلام خرید کر آزاد کردیا۔
جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس خبر کو سنا، تو [اللہ اکبر] کہا اور فرمایا: ’’اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِيْ نَجّٰی فَاطِمَۃَ رضی اللّٰه عنہا مِنَ النَّارِ۔‘‘
[’’سب تعریفیں اللہ کے لیے، کہ جنہوں نے فاطمہ۔ رضی اللہ عنہا ۔ کو (دوزخ کی) آگ سے بچالیا۔ النسائي:1051]
2. حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، انہوں نے بیان کیا: ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے ہاں تشریف لائے اور میں رورہی تھی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ’’مَا یُبْکِیْکِ؟‘‘ [’’تمہارے رونے کا سبب کیا ہے؟‘‘] میں نے عرض کیا: ’’مجھے فاطمہ رضی اللہ عنہا نے سخت سُست کہا ہے۔‘‘
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فاطمہ رضی اللہ عنہا کو بلاوا بھیجا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے (ان کے آنے پر ان سے) فرمایا: ’’یَا فَاطِمَۃُ! سَبَبْتِ عَائِشَۃَ ؟‘‘ [’’اے فاطمہ! تم نے عائشہ کو سخت سُست کہا ہے؟۔ رضی اللہ عنہما ۔] انہوں نے عرض کیا: ’’نَعَمْ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ!‘‘ [’’جی ہاں یا رسول اللہ۔ صلی اللہ علیہ وسلم ۔!‘‘] آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’أَلَیْسَ تُحِبَّیْنَ مَنْ أُحِبُّ؟‘‘[’’کیا تم اس سے محبت نہیں کرتی، جس سے میں محبت کرتا ہوں؟‘‘] انہوں نے عرض کیا: ’’جی ہاں‘‘۔ ’’وَتُبْغِضِیْنَ مَنْ أُبْغِضْ؟‘‘ [’’اور تم اس سے نفرت کرتی ہو، جس سے میں نفرت کرتا ہوں؟‘‘] انہوں نے عرض کیا: ’’کیوں نہیں۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’فَإِنِّيْ أُحِبُّ عَائِشَۃَ رضی اللّٰه عنہا فَأَحِبَّھَا۔‘‘
[’’پس میں یقینا عائشہ سے محبت کرتا ہوں، سو تم بھی اس سے محبت کرو۔‘‘] فاطمہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا: ’’لَا أَقُوْلُ لِعَائِشَۃَ شَیْئًا یُؤْذِیْھَا أَبَدًا‘‘
[’’میں کبھی بھی عائشہ رضی اللہ عنہا کو ایسی بات نہ کہوں گی، جو ان کے لیے باعثِ اذیّت ہوگی۔‘‘[مسند أبی یعلی الموصلی:599/4955]
3. حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، کہ انہوں نے بیان کیا: ’’حسن بن علی رضی اللہ عنہما نے صدقہ کی کھجوروں میں سے ایک کھجور اٹھا کر اپنے منہ میں ڈالی، تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: [کِخْ کِخْ] تاکہ وہ اس کو پھینک دیں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’أَمَا شَعَرْتَ أَنَّا لَا نَأْکُلُ الصَّدَقَۃَ؟‘‘ [’’کیا تمہیں علم نہیں، کہ یقینا ہم صدقہ نہیں کھاتے؟‘‘ [صحیح بخاری:1491]
سیرت رسول پر تقریر: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیت والد
اولاد کی بیماری اور وفات پر صبر
دنیا کے سنگین صدموں میں سے ایک اولاد کی وفات کا صدمہ ہوتا ہے۔ ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس صدمے کا متعدد مرتبہ سامنا کرنا پڑا۔ سوائے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی ساری اولاد کی موت کی مصیبت کا سامنا کرنا پڑا، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کمال صبر و استقامت سے اس دکھ کو برداشت کیا۔
1. حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے بیان فرمایا: ’’ [’’ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک بیٹی [ کے جنازے میں ] حاضر ہوئے۔ ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قبر پر تشریف فرما تھے۔ ’’پس میں نے دیکھا، کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دونوں آنکھیں آنسو بہا رہی تھیں۔‘‘[صحیح بخاری:1285]
2. حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ [’’ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ ابوسیف لوہار کے ہاں گئے۔اور وہ ابراہیم رضی اللہ عنہ کے رضاعی والد تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابراہیم کو پکڑا، انہیں بوسہ دیا اور سونگھا‘‘
[’’پھر ہم اس کے بعد ان کے پاس گئے۔ (اور تب) ابراہیم دم توڑ رہے تھے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھیں آنسوؤں سے بہنے لگیں۔ (یہ دیکھ کر)
عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: ’’یارسول اللہ۔ صلی اللہ علیہ وسلم ۔آپ بھی (رو رہے ہیں)؟‘‘
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اے ابن عوف! یہ تو یقینا رحمت ہے۔‘‘پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم دوبارہ روئے اور فرمایا: ’’إِنَّ الْعَیْنَ تَدْمَعُ، وَالْقَلْبُ یَحْزُنُ، وَلَا نَقُوْلُ إِلَّا مَا یَرْضَی رَبُّنَا، وَإِنَّا بِفِرَاقِکَ یَا إِبْرَاھِیْمُ ! لَمَحْزُوْنُوْنَ۔‘‘
’’بے شک آنکھوں سے آنسو جاری ہیں، دل غمگین ہے، لیکن ہم صرف وہ ہی کہتے ہیں، جسے ہمارا رب پسند کرتا ہے۔ اے ابراہیم! بلاشبہ ہم تمہاری جدائی سے غمگین ہیں۔‘‘[صحیح بخاری:1303]
3. حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، کہ [بے شک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک صاحبزادی نے آپ کو پیغام بھیجا: ’’ہمارا خیال ہے، کہ میری بیٹی کی وفات کا وقت آچکا ہے، اس لیے آپ ہمارے ہاں تشریف لائیے‘‘ اور اس وقت وہ (اسامہ) ، سعد اور ابی رضی اللہ عنہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس موجود تھے]
[آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں سلام بھیجا، اور فرمایا (یعنی یہ پیغام بھی ارسال کیا): ’’بلاشبہ اللہ تعالیٰ ہی کے لیے ہے، جو انہوں نے لے لیا اور جو انہوں نے عطا فرمایا اور ہر چیز کا ان کے ہاں (وقت) مقرر ہے، پس تم ثواب کی امید رکھو اور صبر کرو۔‘‘ پھر انہوں نے قسم دے کر پیغام بھیجا، [نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اٹھے اور ہم بھی (آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جانے کے لیے) اٹھے، بچی کو اٹھا کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی گود میں رکھا گیا اور اس کی سانس کے اٹکنے کی بنا پر آواز پیدا ہورہی تھی (یہ حال دیکھ کر) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔] سعد رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا: ’’مَا ھٰذَا یَارَسُوْلَ اللّٰہِ؟‘‘ [’’یارسول اللہ! یہ کیا ہے؟‘‘]
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ھٰذِہِ رَحْمَۃٌ وَضَعَھَا اللّٰہُ فِيْ قُلُوْبِ مَنْ شَائَ مِنْ عِبَادِہِ، وَلَا یَرْحَمُ اللّٰہُ مِنْ عِبَادِہِ إِلَّا الرُّحَمَائَ۔‘‘ [’’یہ رحمت ہے، اللہ تعالیٰ اپنے بندوں میں سے جن کے دلوں میں چاہتے ہیں، ڈال دیتے ہیں اور اللہ تعالیٰ اپنے بندوں میں سے رحم کرنے والوں پر ہی رحم فرماتے ہیں۔‘‘[صحیح بخاری:5655]
سیرت رسول پر تقریر: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیت والد
دامادوں کے ساتھ گہرا تعلق اور عمدہ معاملہ
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے دامادوں سے خصوصی تعلق رکھتے اور ان کے ساتھ بہترین معاملہ فرماتے تھے۔
1. حضرت اُم منذر بنت قیس انصاریہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا: ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے ہاں تشریف لائے اور ان کے ساتھ علی رضی اللہ عنہ تھے۔ اور علی رضی اللہ عنہ حالتِ نقاہت میں تھے، اور ہمارے ہاں خشک کھجوروں کے لٹکائے ہوئے خوشے تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان سے کھاتے تھے، علی رضی اللہ عنہ نے بھی کھانے کی خاطر (اس کو ) پکڑا ، تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’ مَہْ ۔ یَا عَلِيٌّ ! إِنَّکَ نَاقِہٌ۔‘‘ ’’اے علی! رُک جاؤ ، بے شک تم حالتِ نقاہت میں ہو۔ ‘‘ انہوں نے بیان کیا: ’’میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے جَو اور چقندر (کا شوربہ) تیار کیا ، تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ یَا عَلِيٌّ ! مِنْ ھٰذَا ، فَأَصِبْ ، فَإِنَّہُ أَنْفَعُ لَکَ ۔ ’’اے علی رضی اللہ عنہ ۔! اس سے لو ، بے شک یہ تمہارے لیے زیادہ مفید ہے۔‘‘[ابوداؤد:385]
2. حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، کہ ’’جب اہلِ مکہ نے (غزوۂ بدر کے) اپنے قیدیوں کو چھڑانے کی خاطر مال بھیجا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی زینب رضی اللہ عنہا نے (اپنے شوہر) ابوالعاص بن ربیع کے فدیہ کے لیے مال بھیجا ،اور (اسی مال میں ) خدیجہ رضی اللہ عنہا کا ابوالعاص کے گھر رخصتی کے وقت کا انہیں دیا ہوا ہار ارسال کیا۔ انہوں [یعنی عائشہ رضی اللہ عنہا ] نے بیان کیا: ’’فَلَّمَا رَآھَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللّٰه علیہ وسلم رَقَّ لَھَا رِقَّۃً شَدِیْدَۃً۔‘‘ [’’جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے دیکھا، تو آپ پر شدید رقّت طاری ہوگئی‘‘] اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’إِنِْ رَأَیْتُمْ أَنْ تُطْلِقُوْا لَہَا أَسِیْرَھَا، وَتَرُدُّوا عَلَیْہَا الَّذِيْ لَہَا،
فَافْعَلُوْا۔‘‘ [’’اگر تم مناسب سمجھو، تو اس کے لیے اس کے قیدی کو چھوڑ دو اور اس کا (بھیجا ہوا) مال بھی اسے واپس کردو۔‘‘] انہوں [یعنی حضرات صحابہ] نے عرض کیا: ’’نَعَمْ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! ’’جی ہاں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !‘‘ انہوں نے اس کو چھوڑ دیا، اور ان کا مال (بھی) انہیں لوٹا دیا۔ [ ابوداؤد:2689]
3. عبد الرحمن بن ابی لیلیٰ سے روایت ہے، انہوں نے بیان کیا: ’’کہ ’’ابو لیلیٰ (حضرت) علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ رات کو گفتگو کیا کرتے تھے اور وہ (یعنی حضرت علی رضی اللہ عنہ ) سردیوں میں گرمیوں کے کپڑے اور گرمیوں میں سردیوں والے کپڑے پہنا کرتے تھے۔‘‘ ہم نے (ابو لیلیٰ سے) عرض کیا: ’’اگر آپ ان سے (اس بارے میں ) پوچھیں۔‘‘ (ان کے دریافت کرنے پر) انہوں نے بیان کیا: ’’إِنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللّٰه علیہ وسلم بعَثَ إِلَيَّ ، وَأَنَا أَرْمَدُ الْعَیْنَیْنِ، یَوْمَ خَیْبَرَ۔‘‘
’’بے شک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے (غزوۂ) خیبر کے موقع پر بلاوا بھیجا اور تب میری دونوں آنکھیں دکھ رہی تھیں۔‘‘ میں نے عرض کیا:
’’یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! إِنِّيْ أَرْمَدُ الْعَیْنَیْنِ۔ ’’اے اللہ تعالیٰ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! بے شک میری دونوں آنکھیں دکھ رہی ہیں۔‘‘ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے میری آنکھوں میں تھوکا اور کہا: ’’اَللّٰہُمَّ اذْھَبْ عَنْہُ الْحَرَّ وَالْبَرْدَ۔‘‘ [’’اے اللہ! اس سے گرمی اور سردی کو ختم کردیجئے۔‘‘] انہوں نے بیان کیا: ’’فَمَا وَجَدْتُّ حَرًّا وَلَا بَرْدًا بَعْدَ یَوْمَئِذٍ‘‘ کہ [’’اس دن کے بعد میں نے نہ کبھی گرمی کو محسوس کیا اور نہ (ہی) سردی کو۔[ابن ماجہ:117]
سیرت رسول پر تقریر: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیت والد
خلاصہ تقریر نبی کریم ﷺ بحیثیت والد
برادران اسلام! میری تقریر کا خلاصہ یہی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم زندگی کے ہر شعبے میں ہر طرح سے کامل و مکمل نظر آتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت بحیثیت والد دنیا کے ہر باپ اور والدین کیلئے بہترین نمونہ ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اولاد کے تئیں تعلیم و تربیت کی جو مثال پیش کی ہے دنیا ایسی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے، اولاد کی پرورش کی بات ہو یا پردے کی، صوم و صلوٰۃ کی پابندی کا خیال ہو، یا حلال و حرام کے تمیز کی، آداب و اخلاق کا معاملہ ہو، یا شفقت و رحمت کی، دنیاوی زندگی جینے کا سلیقہ ہو، یا اخروی زندگی کی کامیابی کی، آپ ﷺ نے ہر اعتبار سے اولاد کی تربیت کر کے والدین کے لئے آسانیاں پیدا فرمادی ہے،
اب ہر والدین ماں باپ کو چاہیے کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ کی سیرت بحیثیت والد کا مطالعہ کرے اور اپنی اولاد کی صحیح تربیت کردے، ورنہ اس میں کوتاہی آخرت میں مواخذہ کاسبب بن سکتی ہے ،اسی لیے اللہ تعالٰی اہل ایمان سے خطاب کرکے فرماتا ہے :اے ایمان والو! اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو جہنم کی آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہیں اس پر سخت اور طاقتور فرشتے مقرر ہیں جو اللہ کی نافرمانی نہیں کرتے انہیں جو حکم دیا جائے وہ کر گزرتے ہیں (التحریم :6)۔
نار جہنم سے بچنے کی فکر جس طرح خود کو کرنی ہے اسی طرح والدین کی یہ اہم ذمہ داری ہے کے وہ اپنی والاد کی بچپن سے ایسی تربیت کریں کہ ان میں دینی شعور پختہ ہو اور بڑے ہوکر وہ زندگی کے جس میدان میں بھی رہیں ایمان و عمل صالح سے ان کا رشتہ نہ صرف قائم بلکہ مضبوط رہے ۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہم سب کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سیرت کو اپنانے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین ثم آمین یا رب العالمین
وصلی اللہ علی النبی